قسط 1 ( ہیرو، ہیروئن کا تعارف)
رات کو ساری فضا میں گولیوں کی آوازیں گونج رہی تھی۔ آج مخالف ملک نے پھر اپنی کم ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پاکستان کے بارڈر پر گولیاں چلانا شروع کر دی تھیں۔ ہماری آرمی نے بھی ان کو منہ توڑ جواب دیا تھا پورے 2 گھنٹے یہ سلسلہ جاری رہا اور اب وہ کچھ سکون سے بیٹھے ہوئے تھے کیونکہ انہوں نے مخالف ٹیم کے آدھے سے زیادہ بندھے مار گرائے تھے۔۔۔
کیپٹن معید! از ایوری تھنگ اوکے نہ..؟؟ ہمارے آفیسرز کو کچھ ہوا تو نہیں۔۔۔۔
وہ سب گول دائرے بنائے بیچ میں آگ جلائے آرام سے بیٹھے ہوئے تھے جب وہ فریش ہو کر ان سب کے پاس آیا اور پوچھا۔۔
یس سر سب ٹھیک ہے بس کچھ آفیسرز کو چھوٹی موٹی چوٹیں آئی ہیں ان کا ٹریٹمنٹ ہو رہا ہے۔۔۔۔۔
کیپٹن معید نے کھڑے ہو کر ساری صورتحال سے آگاہ کیا۔۔۔
اوکے آفیسر بہت اچھے اینڈ سیٹ ڈاؤن آج میں بھی آپ لوگوں کو جوائن کر رہا ہوں۔۔
اووووو واقعی سر سچ میں۔۔۔؟؟؟
وہ بہت کم ہی ان لوگوں ایسی پارٹیوں میں جوائن کرتا تھا۔ ہر وقت سنجیدہ اور اپنے کام سے کام رکھتا تھا ہر وقت ملک کے لیے کچھ کرنے کا جنون رہتا تھا۔ آج اس نے ان لوگوں کو جوائن کیا تو وہ سب بہت خوش ہوگئے۔۔
سر پھر تو آج آپکا اک گانا ہو جائے پلیز
معید نے منت بھرے لہجے میں کہا۔۔۔۔
آفیسر میرے پاس ابھی میرے پاس گیٹار نہیں ہے اس نے جان چھڑاتے ہوئے کہا۔
تو کیا ہوا سر میں ابھی گیٹار لے کر آتا ہوں معید بھاگتا ہوا گیٹار لینے گیا اور وہ اس کی بےتابی پر مسکرا دیا۔۔۔
ہاں تو بھائیوں آج میجر اعجاز احمد آپ لوگوں کو اپنی سریلی آواز میں ایک گانا پیش کرتے ہیں۔۔
اعجاز نے معید کی بات سن نے کے بعد مسکرا کر گانا شروع کیا۔۔
میرے حصے کی ہنسی کو خوشی کو تو چاہیے آدھا کر
چاہیے لے لے تو میری زندگی پر یہ مجھ سے وعدہ کر
اسکےاشکوں پہ غموں پہ دکھوں پہ ہر اسکے زخم پر
حق میرا ہی رہے ہر جگہ ہر گھڑی تا عمر بھر
اب فقط ہو یہی وہ رہے مجھ میں ہی
ہو جدا کہنے کو بچھڑے نہ پر کبھی
اے خدا
اے خدا
جب بنا
اس کا ہی بنا
___________ _____________ ________
احمد صاحب کے دو بیٹے تھے ان کی شادی انکی کزن بشریٰ بیگم سے ہوئی تھی سب سے بڑا بیٹا اعجاز احمد آرمی میں میجر کے عہدے پر فائز تھا اس کو اپنے وطن سے محبت ہی محبت تھی اور یہ جذبہ اس کے اندر اپنے والد سے آیا تھا احمد صاحب بھی آرمی میں برگیڈیئر کے عہدے پر فائز تھے اور اپنے ملک کی حفاظت کرتے ہوئے شہید ہوگئے تھے۔۔ دوسرا بیٹا شہریار جو ابھی انٹر میں ہے اور اس کے اندر بھی باپ بھائی جیسے ہی جذبات ہے بہت جلد ہماری آرمی میں ایک اور سپاہی کا اضافہ ہونے والا ہے
_____________ ______________
عرش عرش بیٹا اٹھو یونیورسٹی نہیں جانا۔۔؟؟؟؟
نصرت بیگم نے عرش کو اٹھایا ۔۔
جی ماما بس اٹھ گئی وہ یہ کہتی ہی واش روم بھاگی۔۔
وزیر صاحب کی شادی انکی پسند سے نصرت بیگم سے ہوئی تھی وہ ایک وین ڈرائیور تھے عرش انکی اکلوتی اولاد تھی جو اپنے ماں باپ کو بہت پیاری تھی کبھی جو اس نے فضول خواہش کی ہو ہر وقت اپنے باپ کا احساس رہتا تھا اور وہ ان کا بازو بننے کے لیے بی ایس سی کے بعد آرمی جوائن کرنے والی تھی کیونکہ اسے اپنے وطن اور وطن کی حفاظت کرنے والی آرمی سے بہت محبت تھی
_____________ ________________
عرش جیسے ہی یونی میں داخل ہوئی پیچھے سے کسی نے بہت زور سے اسے گلے لگایا۔ عرش نے ایک دم سے پیچھے دیکھا اور مسکرائی کیونکہ وہ جانتی تھی یہ حرکت صرف اسکی اکلوتی دوست رجا ہی ایسا کر سکتی ہے۔۔
اوووو رجا کتنی دفعہ کہا ہے نہیں کرا کرو ایسا عرش نے مصنوعی غصے سے کہا۔۔
ہاہاہاہا بیٹا جب تمہاری شادی ہوجائے گی نہ اور کوئی ہوگا نہیں تنگ کرنے والا تو تمہیں میں ہی یاد آؤنگی رجا نے اتراتے ہوئے کہا ۔۔
ابھی تو میرا شادی کا کوئی ارادہ نہیں ابھی صرف آرمی جوائن کرنی ہے پھر وہی کے کسی فوجی سے شادی کر لوں گی ۔۔
اور پھر دیکھنا ہم دونوں اپنی الگ دنیا بنائے گے مجھے وہاں کسی کی یاد نہیں آئیگی عرش نے کھوئے ہوئے لہجے میں کہا۔۔
اوہو میڈم بس کردو ایک تم اور تمہارا آرمی مین رجا نے اس کے تھپڑ رسید کرتے ہوئے کہا۔۔
اوووو میرے آرمی مین کو کچھ نہیں بولو۔۔۔عرش نے کہا اور پھر دونوں مل کر ہنسنے لگی۔۔۔۔۔
___________ __________ _______
To be continued..😇
Yeh mera pehla novel hai plx cmnt me zaror bataega k kesi lagi epi
🔹Next epi wil be update on tuesday In Sha Allah
🔹Follow me on Instagram
#Arsh_writes11